Water People Crops Fields

User Rating: 5 / 5

Star activeStar activeStar activeStar activeStar active
 

کھنڈرات موجود ہیں جو کہ 133ایکٹر زمین پر محیط ہیں۔ بنوں کے لوگوں میں یہ روایت چلی آرہی ہے کہ آکرہ کے کھنڈرات عذاب الہٰی کی یادگار ہیں۔ ان کے خیال میں یہ شہر کسی زمانے میں خوب آباد تھا۔ مگر یہاں کے باسیوں پر ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے قہر نازل ہوا اور ساری کی ساری آبادی آن کی آن میں نیست و نابود ہو گئی۔ اور اب یہ لفظ آکرہ بدعا کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہ ایک بدترین بدعا سمجھی جاتی ہے۔ایک دوسرے مفروضے کے تحت آتش فشاں کے لاوے نے اس شہر کو گھیر لیا اور اس کو نیست و نابود کر دیا۔ مگر اس کی بھی کوئی سائنسی بنیاد نہیں اور نہ ہی آثار قدیمہ کے کسی ماہر نے اس کی طرف کوئی اشارہ کیا ہے۔مقامی ہندووں کے عقیدے کے مطابق شہر آکرہ کا بانی بھرت تھا جو کہ رام چندر کا بھائی تھا مگر یہ بات بھی غلط ثابت ہوتی ہے۔ کیوں رام اور بھرت یوپی یعنی اتر پردیش کے رہنے والے تھے اور وہاں پر بھرت نے حکومت کی۔ جسے بعد میں رام کو واپس لوٹا دیا گیا۔
شہر آکرہ کے بارے میں اتنی زیادہ تاریخی معلومات تو موجود نہیں بس اس کے ماخذ کچھ کتبے ، بت ، مہریں ، سکے اور دوسرے نوادرات ہیں۔جو وقتا فوقتا یہاں سے دریافت ہوئے اور ملک کے کئی عجائب گھروں میں آج بھی موجود ہیں۔ ان نوادرات سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ آکرہ ایک یونانی شہر تھا۔ اور ان نوادرات میں یونانی اور ہندو مت دونوں تہذیبوں کی آمزش پائی جاتی ہے۔ ان سکوں اور نودرات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یا تو سکندر اعظم خود یہاں سے گزرا یا پھر اُس کے کسی گورنر نے بعد میں اس شہر کو فتح کیا۔ کیونکہ آکرہ یونانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی اونچی جگہ کے ہیں اور جہاں آکرہ واقع ہے یہ ایک بلند پہاڑی ہے باقی علاقہ بالکل ہموار ہے۔ شاید اسی وجہ سے اس جگہ کو آکرہ کا نام دیا گیا۔
یہاں پر بے شمار پکی اینٹیں پائی جاتی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کی تعمیر میں پکی اینٹوں کا استعمال کیا گیا۔ ان اینٹوں کی قدامت آج سے تقریبا 3000سال پرانی بتائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ہندو تہذیب یعنی راجاوں کے نام کے سکے اور دوسرے نشانات بھی ملے ہیں، یوں ثابت ہوتا ہے کہ آکرہ شہر ملی جلی تہذیبوں کا مجموعہ رہا۔ بیرونی حملوں کی وجہ سے یہ شہر تباہ و بربادہوا۔ یوں اس کا نام صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔
ویسے یہ کھنڈرات آہستہ آہستہ لوگوں کے ہاتھوں ختم ہو رہے ہیں۔اگر جلد ہی اس کی طرف توجہ نہ دی گئی تو ہم ہماری تہذیب کے ایک خزانے سے محروم ہو جائیں گے۔

Special Thanks

Special Thanks for Prof:Samsher Ali Khan and Jahangir Khan Sikandri for history Information

Contact Us

If you want to give us your opinion or sggestion you can contact us at

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

Urdu

Pak Urdu Installer

Monday the 14th. Its all about Bannu.